Farewell party at Habibi Restaurant in F8 Merkezwas arranged by my students, Uzma Awan, in mid-Jan 2014, when I had left the post of DG IIIE to join PIDE as VC. Audio file for this lecture is available below. 32m lecture gave some advice, and general recommendations about the seeking of knowledge. A summary of the lecture in urdu, prepared by Javed Iqbal, is given below. An English summary (bit.do/aziiie) is available from: Farewell Advice to IIIE Students

میں خطاب(بنیادی نقاط)

(جنو ری 2014)
(جب آئی آئی آئی ا( ڈی جی) کی پوسٹ سے پائیڈ کے وی سی کی نشست سنبھالی)
1. علم کی اہمیت
اللہ نے سب سے پہلے انسانوں کو علم سکھایا اس سے علم کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اس لئے وہ علم جو اللہ سے تعلق جوڑے وہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض کر دیا گیا ہے اور اسی کے باعث ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے زمانہ عروج دیکھا۔ آج کا مسلمان اس حقیقیت کو نظر انداز کر کے صرف مغربی تقلید کو ہی اپنا مقصد بنا بیٹھا ہے۔ جیسا کے اللہ نے فرمایا کہ” یہ دین اجنبی بن کر آیا اور ایک دن یہ دین اجنبی بن جائے گا”. پھر ایک مقام پر فرمایا کہ “میں اگر پہاڑوں پراس قرآن کو اتارتا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے”-
 پھر نبی کریم ﷺ سے فرمایا کہ میں تمہارے اوپر بہت بھاری قرآن اتارنے والا ہوں یعنی اللہ نے مسلمان کو اصل مقصد بتا دیا. لیکن مسلمانوں نے اپنے مقصدِ حقیقی کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور دنیا کو ہی آج اپنا مقصد حیات بنا لیا ہے۔
(2). عہدِ الست
عہدِ الست سے قبل ہر انسان کو اللہ نے اپنی بندگی اور اطاعت کا علم دیا اور پھر اس سے عہد لیا کے وہ دنیا میں جا کر اپنے رب کا وفا دار رہے گا۔ صرف زبان سے نہیں، دل سے اپنے رب کو معبودِحقیقی مانے گا۔ بقول علامہ اقبال۔
زباں سے کہہ بھی دیا لاالہ اللہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
(3). قدرت اور اللہ کی پہچان
 اللہ کی قدرت کی مائیکرو انجینئرنگ کائنات کے ذرے ذرے میں نظر آتی ہے۔ اگر کوئی شخص حقیقی علم و ہدایت چاہتا ہے تو اس کے لئے کائنات میں پھیلی ہوئی لاکھوں کروڑوں نشانیاں اللہ کے معبودِ واحد اور برحق ہونے کا واضح ثبوت ہیں۔ لیکن انسان اپنے ک ضمیر کی آواز کو دبا کر اپنے نفس کا غلام بن کر اس سب سے نظریں چرا لیتا ہے۔ اس وقت بھی چار ارب انسان دنیا میں ایسے ہیں جو اپنے رب کے منکر ہیں۔ لیکن یہ مسلمانوں کا اخلاقی فریضہ ہے کے زیادہ  سے ذیادہ لوگوں میں معبودِ حقیقی کی پہچان اور حقیقت کو اجاگر کریں۔ قابل صد افسوس مقام یہ ہے کہ آج مسلمانوں کی ہی بڑی تعداد اللہ کے وجود سے انکاری بنی ہوئی ہے۔
اللہ نے قرآن حکیم کی صورت میں ایسا زندہ معجزہ نازل فرمایا ہے کے اس میں دنیا کے ہرہر انسان کے لئے معرفت اور ہدائت ہے۔
(4). توبہ
(ا). دنیا کی کسی بھی مخلوق اور انسان سے زیادہ اللہ اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ جب اسکا بندہ اپنے معبودِ حقیقی کی طرف پلٹتا ہے اور اسکو دل اور زبان اور عمل سے اپنا خالقِ حقییقی تسلیم کرتا ہے.
(ب). انسان کی سرشت میں نافرمانی ہے۔ اسکا نفس اسکو صراطِ مستقیم کی طرف چلنے سے مانع ہوتا ہے لیکن جب وہ سچی توبہ کرتا ہے اور اپنے رب سے ہدایت کی توفیق طلب کرتا ہے تو اللہ اسے اپنے فضل و کرم کی چادر میں گھیر لیتا ہے۔ دیگر مذاہب میں انسان کو اپنے گناہ کا اقرار کسی دوسرے انسان کے سامنے یعنی کسی پادری کے سامنے یا کسی خاص مقام پر جا کے کرنا ہوتا ہے اور پھر اسکی درخواست اللہ کے ہاں بھیجی جاتی ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے ہاں اللہ نے اپنے مومن بندوں کا پردہ رکھنے کے لئے توبہ اور نماز سے ایسا در واہ کر دیا ہے کہ جب بھی سچی توبہ کرنا چاہے تو نماز سے اپنے رب سے تعلق قائم کرے اور تمام دل کا حال اس کے گوشِ گزار کر کے حقیقی معافی کا حقدار بن جائے۔ اور اللہ کے رحیم و کریم ہونے کی اس سے بڑی کیا دلیل ہو گی کہ وہ اپنے بندے کو یوں معاف فرماتا ہے کہ وہ گویا نومولود بچہ ہو۔ حتی کہ لوگوں کے دلوں میں بھی اسکا عزت و وقار بلند کر دیتا ہے۔ یہ واحد ایسا مقام ہے کے جہاں پر مسلمان کو جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے کے وہ علی الاعلان اپنے گناہوں کا اقرار ہرگز نہ کرے اور اگر اسکا سابقہ گناہ دوسروں کو گمراہ کرنے کا باعث ہو تو اس گناہ کے مرتکب ہونے کا سراسر انکار بھی کر سکتا ہے۔
(5). اللہ سے تعلق
آج مسلمانوں نے انسانوں کے تعلقات کو اہیمیت دے دی ہے دنیاوی جاہ و حشمت، مال و دولت اور اعلی تعلیمی قابلیت اور اعلی حسب نسب کو ہی تمام تعلقات کی بنیاد بنا لیا ہے۔ جبکہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا دینی بھائی ہے جو اس پیغامِ حق کو بھول گیا ہے۔ اللہ نے فرمایا! اے نبی ﷺ آپ دن میں بہت مشغول رہتے ہیں (یعنی دعوتِ دین میں ) تو رات کو تمام رشتے توڑ کر صرف اللہ سے رشتہ جوڑ لو.
 تو معلوم ہوا کے اللہ سے تعلق جوڑنا ہر شے سے افضل تر ہے۔
(6). شرکِ خفی
اللہ نے فرمایا کہ” وہی مشرق کا بھی رب ہے اور مغرب کا بھی رب۔ وہ ہی معبود ہے تو اسکو تم اپنا کارساز و وکیل بناؤ ۔
 جبکہ آج مسلمانوں نے دولت، اولاد اور دنیاوی عزت و مقام کو ہی اپنا کارساز بنا لیا ہے۔ اسکو شرکِ خفی کہتے ہیں۔ کفارِ مکہ نے بھی یہی وطیرہ اختیار کیا تھا۔ وہ اللہ کے وجود سے منکر نہ تھے لیکن اپنے بتوں کو ہی کارساز اور وکیل تصور کرتے تھے اور ان کو وسیلہ بنا کر اللہ کے حضور التجائیں کرتے تھے اور بعد میں آنے والی نسلوں نے براہِ راست ان بتوں کو ہی معبود اور خالق تصور کر لیا تھا۔ مسلمان بھی آج بہک کر دنیاوی خداؤں پر توکل کر کے بیٹھ گیا ہے اور جب تمام دنیاوی سہارے اور مدد سے عاجز ہو جائے تو ہی اللہ  کی طرف رجوع کرتا ہے اور پھر دعائیں اور منتیں مانتا ہے تو جسکو اولین اہمیت دینا تھی اسکو آخری درجے پر لے آیا۔
(7). دعوتِ دین
اللہ نے فرمایا کہ تم بہترین امت ہو جو دوسروں کو دعوتِ دین کے لئے نکالی گئی  ہے۔
لیکن ہم نے اللہ کی عبادت کے لئے اور اسکے دین کی دعوت کے لئے وقت نہیں نکالا اور دنیاوی مفاد اور ذاتی کاموں کو ترجیح دی۔ تو یہ نا انصافی ہم نے اللہ کے ساتھ خود کر رکھی ہے اور اپنے نفس کو اولین درجہ دے رکھا ہے۔ اپنی ترجیہات کو موڑنا ہے۔ اور بقول علامہ اقبال
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں،
راہ دکھلائیں کسے راہ رو منزل ہی نہیں۔۔۔۔
تو اللہ کی ہدایت حقیقی کے لئے پانچ وقت نماز کو ہی صحیح آداب اور توجہ دے لیں تو انسان صراط مستقیم کا مسافر بن جائے گا۔  حدیث مبارکہ میں ہے کہ اللہ فرماتا ہے اے میرے بندے، تجھے مجھ سے بھی زیادہ کسی چیز سے پیار ہے؟ اور یہی سوال وہ تین بار کرتا ہے
(ا). معلوم ہوا کے نماز میں انسان توجہ ادھر ادھر مبذول رکھتا ہے اور نماز کے آداب اختیار نہیں کرتا ہے تو نماز کو ہی اگر ہم حقیقی طور پر اپنا لیں تو ہم حقیقی ہدایت پا سکتے ہیں۔ تو نماز کے لئے ہمیں آداب سیکھنے ہیں کے ہم کس عظیم ہستی سے مخاطب ہیں اسکو جانیں۔
(ب). دوسرا اس میں نقطہ ہے توجہ دیں۔ اگر ہماری توجہ نماز کے دوران بھٹک جاءے تو بار بار مشق کر کے توجہ کو اپنے رب کی طرف ہی مبذول کرتے رہیں تو ان شاءاللہ تعالی اس میں بھی کاملیت عطا ہو گی۔
 اللہ نے فرمایا انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے۔ پھر فرمایا۔ جو مجھ پر محنت کرے گا، اسی کو راستہ دکھائیں گے۔ تو خلاصہ یہ ہوا کے اگر ہم سچے دل سے اللہ کو پانے کے لئے محنت کریں تو ممکن ہی نہیں کے ہمیں راہِ ہدایت کی رہنمای نہ کرے۔ اور قابلِ فخر عمل یہ ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا حکم مرد و وعورت کے لئے بلا تفریق ہے، جس طرح علم ِ حقیقی کا حصول ہر مرد و عورت پر فرض کیا گیا ہے بغیر کسی تفریق کے۔ تو اللہ تعالی ہم سب کو ایمانِ کامل عطا فرمائے اور عملِ صالح کی توفیق عطا فرمائے! آمین ثم آمین!!
تحریر جاوید اقبال

 

One thought on “Farewell Lecture to IIIE Students – Jan 2014”

Comments are closed.