Dr.Asad Zaman Sahib Lecture About Atheism at DarulUloom Karachi 22 November 2016 — Lecture explains the strong tide of atheism rising in the West, and how it is influencing Muslim youth all over the world. Secular atheists, in their attempts to disprove the existence of God, have actually discovered very strong evidence in favor of God. This evidence is needed to counter the widespread impression that Science has somehow made religion obsolete — These are new and unfamiliar arguments, which we need to learn, to protect our youth from going astray.

The FULL 90m Audio recording can be heard below :

An urdu summary PDF prepared by Moulana Yasir can be viewed/downloaded from SCRIBD:
[scribd id=380213600 key=key-N9U2Lcw8YTL4EfbJHnuk mode=scroll]

The PDF is also available for download here:
https://www.dropbox.com/s/z78szszj5398dza/Jadeed%20Ilmul%20Kalam.pdf?dl=0

A word document of the article is available here:
https://1drv.ms/w/s!AqUg6YsQpPb1gadjzYM8ABAHHHZM6g

The following URDU copy may not be satisfactory, because of some difficulties with keeping lines and ordering straing in left-to-right text:

جدید علم الکلام کی تدوین: علمائے امت کی ذمہ داری

ڈاکٹر اسعد زمان

ضبط و ترتیب وتلخیص:یاسر احمد زیرک

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت امت اجتماعی طور پر ایک بہت بڑی غلطی میں مبتلا ہے کہ ہم لوگ سمجھ رہے ہیں کہ دینی علوم کے مقابلے میں عصری علوم زیادہ قیمتی ہیں اور بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں، لوگوں کی نظر میں دینی علوم کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد صرف عصری علوم کی تحصیل کے لیے اداروں میں بھیجی جاتی ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں:

خیرا نہ کر سکامجھے جلوہ دانش فرنگ

سرمہ میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

اقبال تو بچ گیا لیکن باقی ساری امت اس مسئلہ میں مبتلا ہے کہ ان کی آنکھیں جلوہ دانش فرنگ سے خیرہ ہو چکی ہیں ۔ ایک زمانے میں یونانی علوم کا چرچا اور شہرت ہوئی اور امت کے بعض افراد اس بات کو تسلیم کر نے لگیں کہ عقل اور وحی برابر ہے۔عقل سے مراد یونانی فلسفہ ہےجس سے یہ لوگ مرعوب ہو چکے تھے۔ ہارون الرشید نے اس کو جبرا لاگو کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے حسب وعدہ اپنے دین کی حفاظت فرمائی ورنہ دین کو بہت نقصان پہنچتا ۔ عیسائیت بالکل اس طرح سے ختم ہوئی۔ انہوں نے یونانی علوم کو اپنے دین میں شامل کر لیا۔دراصل یونانی علوم میں بہت سی با تیں ایسی تھی جو اس وقت نہایت ہی واضح تھیں اور جو چیز مبینات میں سے ہو اس کا انکار کرنا کافی مشکل کام ہے۔ اس وقت کے مبینات میں سے یہ نظریہ بھی تھا کہ کرہ ارض کائنات کا مرکز ہے ۔ بعد میں جب سا ئنس آئی توکئی جگہوں پر یونانی علوم غلط ثابت ہوئے۔ ہمارے ہاں بھی اگر یونانی علوم غالب آجاتے اور دینی علوم کے ساتھ خلط ملط ہو جاتے تو آج ہم بھی دین کی حقانیت پر شک کرتے۔ ایسی ایسی چیزیں ہیں جو سائنس نے غلط ثابت کر دی ہیں۔ اس وقت ہم مغربی علوم کو اتنا ہی ٹھو س مان رہے ہیں جتنا اس زمانے میں لوگ یونانی علوم کو مان رہے تھے۔ ہمارے ہاں صالح اور دیندار اکانومسٹ جب قرآن پاک اور کسی معاشی نظریئے کے درمیان تضاد محسوس کرتے ہیں تو قرآن پاک کی آیتوں کی تاویل شروع کر دیتے ہیں، جب کہ مغربی علوم کی طرف غلطی کی نسبت کرنا گوارا نہیں کرتے، حالانکہ بہت ساری مثالیں موجود ہیں کہ مغربی معاشی نظریات بعد میں غلط ثابت ہو چکے ہیں۔

ملکہ برطانیہ کے معاشی بحران کی وجہ سے پوری دنیا کو ایک زبردست معاشی دھچکا لگا۔ 2008اور تم لوگوں کو کوئی سے رپورٹ طلب کی کہ اتنا بڑا ماجرا ہوا “لندن سکول آف اکنامکس “نےامریکہ میں کانگریس نے باقاعدہ ایک میٹنگ تشکیل دی کہ ہمارے معاشی علوم خبر نہیں نہیں تھی۔کے اندر ایسے کیا نقائص ہیں جس کی وجہ سے اتنا بڑا واقعہ رونما ہوا، جس کے نتیجے میں دنیا دنیا میں رائج نظامہائے معیشت کے یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔علم معاشیات میں ” طلب اندر کافی خرابیاں ہیں جو رفتہ رفتہ اہل علم کے سامنے واضح ہو رہے ہیں۔کی نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ ماہرین معیشت سائنس کے “قانون کشش ثقل”ورسد کے قوانین” طرح اس کو ٹھوس سمجھ رہے ہیں، جس میں تبدیلی یا غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جب کہ ، کیونکہ طلب کا تعلق تو دل کے ارادے اور خواہش کے ساتھ ہے۔ اگر ہم حقیقت اس کے برعکس ہےا اس لہٰذکسی چیز کی طلب کو بالکلیہ دل سے ہی نکال دیں تو طلب کا قانون وہی پر ختم ہو جائے گا۔قانون کی وہ حیثیت نہیں جو کشش ثقل کے قانون کی ہے۔

آج ہماری حالت زار یہ ہے کہ جہاں کہیں ہم کسی سائنسی نظریئے کا ٹکراؤ قرآن پاک کی کسی آیت رنا شروع کر دیتے ہیں، لیکن کے ساتھ محسوس کرتے ہیں تو ہم فوری طور پر آیت کی تاویل کمغرب کے طریقہ تعلیم اور رت غلط کہنا گوارا نہیں کرتے۔سائنسی نظریئے یا تحقیق کو کسی صوہم ان طرز تعلیم کو ہم نے حرف آخر سمجھا، ہمارا عصری نظام تعلیم ان باتوں پر ہی مشتمل ہے۔

کو ان سے کم تر کواور ان کے علوم کو برتر سمجھ رہے ہیں جب کہ اپنے آپ اور اپنے دینی علوم رملا اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ سمجھ رہے ہیں۔ کبھی کبھی ہم بہمارے بچوں کے اذہان میں غیروں کی قدرومنزلت بیٹھ جاتی ہے اور یوں ہم اپنی لازوال داستان حیات ، ریاضی، بچوں کو سکول وکالج میں فزکس، کیمسٹری ہم اپنے اور کارہائے نمایاں بھول جاتے ہیں۔ لیکن کبھی اس پر نہیں سوچا کہ پڑھاتے ہیںنہایت ہی انہماک سے وجی وغیرہ اور بیالاکانومیٹرکس کبھی کسی نوکر پیشہ فرد سے عملی زندگی میں ان علوم کا اطلاق کتنے بچوں پر کتنی جگہ ہوتا ہے۔معلوم کیجئے کہ ان علوم نے آپ کو آپ کی نوکری میں کتنا فائدہ دیا؟اس کی وجہ سے آپ کو ، بلکہ ہم اس ہم نے بالکلیہ ان علوم کی افادیت کا انکار نہیں کر رہیںمیں کتنا فائدہ ہوا؟معاشرتی زندگی پہلی جماعت سے لے کر بارہویں جماعت تک کے معاملے میں افراط وتفریط سے بچانا چاہتے ہیں۔اہل مغرب کا دین بچوں پر اسباق کے معاملے میں غیر معمولی بوجھ ڈالنے کے حق میں ہم نہیں ہیں۔، ہمیں ہمارا دین اسلام ہےہیں، جب کہ نس ہے، اس لیے وہ صرف اس میں کامیابی دیکھتےسائچاہیئے کہ ہم ان دینی علوم کی بدولت سب سے پہلے اپنے بچوں کو انسان بننا سکھائیں، اس کے بعد اگر آپ ہارورڈ یونیورسٹی کے کیٹالاگ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہو ۔دیگر ضروری علوم سکھائیںان کے جائے گا کہ ان کے نزدیک بھی تعلیم کا مقصد انسان کی انسانیت سازی اور کردار سازی ہے۔ ہاں تعلیم کا مقصد لیڈرشپ سکھانا اور معاشرے میں رہتے ہوئے احساس ذمہ داری دلانا ہے۔

روع ہوا؟ اس کے کئی وجوہات ہیں۔ مختصرا یہ کہ وہاں کیتھولیکس مغرب میں الحاد کیسے شدو فرقے تھے، ان کے درمیان سالہا سال دہشتناک قسم کی لڑائیاں اور قتل وغارت اور پروٹیسٹینٹس کا بازار گرم رہا۔ بالآخر انہوں نے آپس میں فیصلہ کیا کہ ایک ایسا نظام بناتے ہیں جس میں دین گری سائنس بھی بعینہ یہی کہتی کریں اور صرف عقل اور مشاہدے کو استعمال میں لائیں۔ کو خارج از بحثرفتہ رفتہ انہوں ہے کہ صرف عقل اور مشاہدے پر اعتبار کریں اور وحی کو خارج از بحث کردیں۔نے دین کو اپنے علوم سے باہر نکال دیا،انہوں نے صرف عقل اور مشاہدے کو علم کا ذریعہ قرار دیا ایک فرقے نے تو دین کا اخراج حی کو خارج از بحث سمجھا تو الحاد کے دلدل میں پھنس گئے۔اور وقبول کرلیا لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم پھر بھی دین دار رہیں گے، جب کہ ایک فرقہ ایسا بھی تھا ت کیسے جنہوں نے نہایت جری ہو کر دین کا انکار کیا۔ ان کے سامنے کچھ سوالات ابھر آئے کہ کائناانسان کیسے وجود میں آیا؟دنیا میں یہ مختلف چیزیں کیسے وجود میں آئیں؟ ہم زندگی وجود میں آئی؟کیسے گزاریں؟ عائلی اور معاشرتی معاملات کیسے چلا ئیں؟ وغیرہ وغیرہ

ابتداء ً انہوں نے یہ ان سوالات کے جوابات کے لیے انہوں نے معاشرتی علوم کو متعارف کیا۔اس کے بعد انہوں نے دیگر سوالات کے جوابات کا وجود ہے ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ پیش کیا کہ مفروضہگویا کہ ان کے معاشرتی علوم (سوشل سائنسز) کی عمارت کی بنیاد ہی غلط ہے۔ دینے کی کوشش کی۔اس کے باوجود لوگ ان علوم اس لیے اس کے بطلان کے لیےصرف یہی ایک مفروضہ ہی کافی ہے۔سامنے سربسجود ہیں۔کے

سائنس نے اپنا ابطال خود ہی کیا ہے۔ ان سارے سوالات کے جوابات سائنس ایک دفعہ دے چکی ہے د میں تحقیقات سے اس کا ابطال ہوا۔کہ اس طرح سے ہوا ہوگا اور یوں ہوا ہوگا، چنانچہ بع

غزالیؒ کے نقش قدم پر چلتے ہمارا مدعا بھی یہی ہے کہ جدید نہج پر علم الکلام کو فروغ دیں اور امام کے سائنس اور فلسفے کو ان ہی کی زبان میں رد کریں تاکہ ہماری نسلیں الحاد ہوئے دور جدید کے امام غزالیؒ نے تہافت الفلاسفہ لکھی، یونانی علوم کی گہرائیوں تک پہنچ اس سیلاب میں نہ بہنے پائیں۔۔کا ابطال کیا

کیونکہ ، وہ عقیدہ تثلیث کا ابطال کرتا تھاہے، دراصل موحد تھانیوٹن جو ان کے نئے دین کے موجد بائبل میں کہیں بھی یہ نہیں پایا، لیکن دہریت کے الزام کی وجہ سے وہ کھل کر اپنے عقیدے اس نے کسی بال کو ہوا میں اگر ہم کے قانون کو متعارف کیا کہ مثلاً نیوٹن نےحرکتکا اظہار نہیں کر سکے۔

ہ چلتا رہے گا۔ یہ خود نہیں رکتا بلکہ ہوا و جس رفتار سے پھینکیں گے، اسی رفتارسےپھینک دیں تو اگر خلا میں گیند کو پھینکا جائے تو وہ کبھی نہیں رکے گی کے ٹکراؤ کی وجہ سے رک جاتا ہے۔یہ سب قوانین ے قانون کشش ثقل بھی متعارف کیا۔اس طرح اس ن بلکہ اسی رفتار سے چلتی رہے گی۔ہمیں چاہیے کہ فزکس اس انداز سے پڑھائیں اور بچوں کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ سمجھائیں تاکہ انہیں اچھی طرح قدرتی امور کا مشاہدہ ہو۔

اس کائنات کو کس دہریوں اور دین دار طبقے کے درمیان زمانہ قدیم سے ایک بحث چلا آرہا ہے کہ دہریہ کے مطابق یہ قدیم ہے، ہمیشہ سے اس کا وجود ہے۔ اس سے اگلا سوال اللہ تعالیٰ کی نے بنایا؟ کہ اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ تو یہ ایک ایسی بحث ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں ذات سے متعلق ہےا تعین میں سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے ستاروں کی رفتار اور زمانے کنکلتا۔ پھر بیسویں صدی اس با ت کا ادراک کر سکتے ہیں کہ ستاروں کی شعاع جب ڈاپلر ایفیکٹ کے ذریعے ہم ممکن ہو گیا۔ تار اور اس چھ ایسی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں جس سے ہم اس کی رفہم تک پہنچتی ہے تو اس کے اندر کاس کی چنانچہ کائنات میں بے شمار ستارے ہیں، جب سائنسدانوں نے کا رُخ معلوم کر سکتے ہیں۔ ئیں کہ آج جو ستارہ یہاں موجود ہے،یہ ہوا تو حیرت انگیز نتائج برآمد رفتار کا حساب لگانا شروع کیایک ارب سال پہلے کہاں تھا؟ تو تصور کائنات سے متعلق سائنس کا جو پہلا نظریہ تھا کہ کائنات رہے تھے، یہ نظریہ غلط ثابت ہر ستارہ اپنی مرضی سے ادھر ادھر چلم میں تھا، افراتفری کے عالسب ستاروں کا ایک ہی طرف رُخ ہیں اور ہوا کیونکہ تجربے اور مشاہدے سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سب ایک مربوط نظام کے تحت ایک نقطے کی طرف رواں دواں ہیں۔

۔ دو سائنس دانوں نے اس کی قدامت سے اس طرح تمام سائنس دانوں کا خیا ل تھا کہ کائنات قدیم ہے سے اس کا مشاہدہ کیا اور انکار کیا، چنانچہ انہوں نے ایک بہت بڑی مائیکروسکوپ “ماؤنٹ پالومار”باقاعدہ اعتراف کیا کہ یہ میری زندگی میں سائنس کی سب سے بڑی غلطی ہے۔

اور کشش ثقل کا نظام بھی موجود ہے تو آئن سٹائن تکنیکی بات یہ ہے کہ اگر یہ کائنات قدیم ہےایک ایک دوسرے کی طرف کھینچتی چلی کشش ثقل کی وجہ سے سب چیزیں نے تو یہ بھی ثابت کیا کہ ٹکراؤ کے باعث کائنات ختم جارہی ہیں، بالآخر یہ سب ایک نقطے پر جمع ہو جائیں گی تو آپس میں اس کے بعد آئن سٹائن نے خود اس کے برعکس ایک مفروضہ پیش کیا کہ کشش ثقل کے ہو جائےگی۔کی وجہ سے نظام کائنات چلتی رہے گی، مخالف رد عمل کے لیے ایک اور قوت موجود ہے جس ء میں ایک تجربہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ 1976پھر ھی۔تاس پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں لیکن کائنات ایک دھماکے کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ یہ پوری انسانی تاریخ کا سب سے بڑا تجربہ تھا جس کی وجہ سے ایک بہت ہی بڑی غلط فہمی کا ازالہ ہوا اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ کائنات قدیم نہیں ہے بلکہ حادث ہے۔

ا جو کہ ایٹم سے بھی “فار گارڈ پارٹیکل” نامی کتاب میں مصنف نے ایک چھوٹا سا ذرہ متعارف کییہ ذرہ خود بخود وجود میں آجاتا ہے چھوٹا ہے، جس کو “گارڈ پارٹیکل” یعنی خدائی ذرہ کہا جاتا ہے۔بہرحال یہ لوگ ابھی ۔سےخود بخود وجود میں آیا ہے اس طرح شائد کائنات بھیتو ان کا خیال ہے کہ تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔

) یعنی ہم اس کو پھیلا رہے انا لموسعوننے دنیا کےمتعلق ارشاد فرمایا : (قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ قدیم زمانےکے مفسرین نے اس آیت کی تاویل کی، کیونکہ ان کا خیال یہ تھا کہ کائنات نہیں پھیل ہیں۔ پھٹ پڑھا کائنات شروع میں ایک نقطہ تھا، پھر وہ سکتا۔ آج جب سائنس کا یہ نظریہ پروان چڑھا کہ آج مفسرین اس آیت کی تاویل نہیں کرتے بلکہ آہستہ پھیل گیااور ابھی بھی پھیلتی جارہی ہے۔ آہستہاور ہ جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہیں، وہ اعتراض کر اس کو حقیقت پر محمول کرتے ہیں، چنانچاس آیت کی تطبیق سکتے ہیں کہ قدیم مفسرین کی رائے تو یہ نہیں تھی، ابھی آپ خواہ مخواہ اس طرح جب تک سائنس نے ارتقاء کا نظریہ پیش نہیں جدیدسائنسی نظریئے کے موافق کر رہے ہو۔

کیا تھا، اس وقت کوئی بھی دہریت اور الحاد کی طرف جانے کا تصور نہیں کر سکتا تھا ، کیونکہ ش خود ن کی پیدائانسانی جسم بذات خود اتنا پیچیدہ ہے کہ کوئی یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ انسان نے ارتقاء کا فلسفہ پیش کیا کہ یہ عالم حادثاتی طور پر وجود میں بخود ہو چکی ہے۔، لیکن جب ڈاروالحاد کے وجود کا ایک دہریت اور ۔ ڈارون کا نظریہ اگر چہ غلط اور بے بنیا د تھا لیکن یہ نظریہآیا ۔سبب بنا، چنانچہ اس کے بعد الحاد پھیلنے لگا

ات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے، اس طرح ایک خلیے کی پیدائش سے جس طرح تخلیق کائنایک بیج کے اندر اللہ تعالیٰ نے پورا یک درخت رکھا ہے متعلق بھی ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔بلکہ ایک جنگل رکھا ہے۔ تو ایک خلیے کی پیدائش سائنس دانوں کے لیے ایک معمہ ہے کہ یہ کیسے بن گیا؟

کی پیدائش بذات خود ایک معمہ ہے۔ نطفے سے اس کی پیدائش کیسے ممکن ہو جاتی ہے؟ وہ انسان اب ہر سیل کے اندر یہ طاقت کس نے ڈالی کہ سیل آگے دو اور پھر دو سے چار کیسے بن جاتے ہیں؟وہ کھال بن جائے، بال بن جائے، دل اور پھیپھڑے بن جائے؟ کیا یہ سب سیل آپس میں باتیں کرتے ہیں ہ تم نے سر بننا ہے، تم نے دماغ بننا ہے اور تم نے دل بننا ہے۔ اس کے متعلق کسی کو نہیں پتہ۔ اللہ کتعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ سب کچھ میں کرتا ہوں، انس وجن اور کائنات کی تخلیق میں نے کی ہے۔

ے ہیں، تو ان کرک ایک سائنس دان ہے، انہوں نے وہ نظام دریافت کیا جس سے ایک خلیہ دو بن جاتیں اور نہایت ہی حیرت زدہ ہو گئے کہ کیسے ایک خلیہ دو بن جاتے کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئبہت دور ایک ستارے پر کوئی ایلین لائف ۔ ایک سائنس دان “زندگی” سے متعلق کہہ رہے ہیں کہ ہیںمیں زندگی وجود میں کہ ساری کائنات تھی، کوئی مریخی زندگی تھی۔ ان لوگوں کی خواہش تھی آجائے، اس لیے انہوں نے راکٹ شپ میں خلیے ڈال کر بھیج دیئے جس میں سے ایک زمین پر آگیایہ سب بچگانہ باتیں ہم بلا چوں چرا تسلیم اور اس میں سے زندگی نکلی جس سے ہم سب پیدا ہوگئے۔ دوسری طرف ہمارا جب کہ کررہے ہیں کیونکہ ہم ان کو جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس دعوی کو دعوی بھی یہ ہے کہ مغرب نے جو کچھ بھی سیکھا ہے، مسلمانوں ہی سے سیکھا ہے۔حقیقت بھی یہ ہے کہ ایک زمانہ کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتا کیونکہ ہم تحقیق نہیں کر سکے۔ایسا تھا کہ مسلمان علوم میں اپنی مثال آپ تھے۔ اندلس میں ان کا معاشرہ اپنے پڑوسیوں کے مقابلے اس کے بعد ہمارا زوال شروع ہوا جو مغرب تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ کہ فی ایڈوانس تھا، جبمیں کااپنی جگہ ایک لمبی داستان ہے۔

یال ہے کہ عقل کا سورج یورپ ہی میں طلوع ہوا، ساری دنیا اندھیرے میں تھی اور اہل یورپ کا خبدقسمتی سے آج سے تعبیر کرتے ہیں۔منٹ”نیورپ میں روشنی ہی روشنی تھی، جس کو وہ لوگ “اینلائٹکہ پہلی مرتبہ عقل اور ھی یہ بات رچ بس چکی ہےکی بدولت ہمارے بچوں کے ذہن میں بمغربی تعلیم یورپ کا دعوی شعور یورپ والوں نے سیکھا، اس سے پہلے دنیا میں کسی کے پاس عقل نہیں تھی۔ ن کے جو سب سے بڑے ہیرو ہے کہ سائنس ان کی ایجاد ہے جو کہ دراصل ایک غلط دعوی ہے۔ اشمسی ہے۔ اس کے “، ا س نے پہلی مرتبہ یہ بات کہی کہ یہ نظام ارضی نہیں بلکہ ہے “کوپرنیکسائرہ ہے لیے انہوں نے ریاضی کے کچھ نئے فارمولے پیش کیے۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ زمین گول دنے پیش کیا، وہ دراصل کوپرنیکسجو نظریہ کہ دائرہ نہیں بلکہ بیضوی شکل ہے۔مگر اس نے کہا چونکہ یونانی زبان سے واقف نی کتاب میں پیش کیا تھا۔ کوپرنیکس”ابن شاطر” نے سب سے پہلے اپابن شاطر خود بھی اس نظرئیے کا تھا، اس لیے اس نے وہاں سے نقل کرکے اپنی طرف منسوب کیا۔اس طرح کی کئی مثالیں موجد نہیں تھا بلکہ انہوں نے بھی اسے کسی اور کے حوالے سے نقل کیا ہے۔مانوں کی نظریات عربی اور کتابوں کے اندر موجود ہے کہ اہل مغرب کے سائنس دانوں نے مسلیونانی زبان سے اپنی زبان میں منتقل کرکے اپنی طرف منسوب کیے اور آج وہ ان کے کارہائے نمایاں گنے جاتے ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

نے عرب قوم جس کی بدولتایک بہت گہرا علم دیا اسلامی علوم کی شکل میں امت کو اللہ تعالیٰ نے ،اس زمانے میں چین ۔جاہل ترین قوم تھی دنیا کا زمام اقتدار تھام لیا جب کہ اس سے پہلے یہ دنیا کی اورئنس ان کے پاس سا ں،تھیاقوام ترقی یافتہ ،ڈوانس سیویلازیشن تھے یا روم اور فارس ،مصر بہت اور دیگر ریچر لٹ کے علاوہ کافیموسیقی کا سامان اور عیش و عشرت ا، تھ ے کا علمفلسفگئے لیڈر بن کےدنیا مگر ان سب چیزوں کےباوجود قرآن وسنت کی بدولت مسلمان ساری چیزیں تھیں یہ سب کچھ صرف اس علم ہی کی ایک ہزار سال تک دنیا کی سرداری ان کے ہاتھ میں رہی۔ اور بدولت ممکن ہوا جس کی تکمیل کی گواہی رب کریم نے کچھ یوں دی:

)3(المائدۃ؛ أکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ وَأتْمَمْتُ عَلَیکُمْ نِعْمَتی وَرَضیتُ لَکُمُ الإِسْلامَ دیناًاَلْیوْمَ

ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لیے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کیا۔

اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم الشان نعمت وحی ہے جو پایہ اتمام کو پہنچ گئی ہے اور قیامت تک کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس دین حق پر اپنی رضا و خوشنودی کی مہر لگا دی ہے۔ اس نعمت میں کوئی کمی یا رت نہیں نقص نہیں ہے۔ اس لیے دنیا کی قیادت کے لیے ہمیں اس کے علاوہ کسی اور علم کی ضروہے۔آج دنیا میں دیندار لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ امت اگر اس وقت ترقی کرنا چاہتی ہے جو مغربی علوم ہی کی بدولت ممکن ہے، البتہ قرآنی علوم سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ھی تک اس اس بات کو سمجھانے کی اشد ضرورت ہے کہ وحی کے علوم سب سے بڑھ کر ہیں،۔ ہم ابکی انقلابی شخصیت اور دنیا پر ان ﷺ بات کو ثابت نہیں کر سکیں، حالانکہ کفار بھی حضور اکرم مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب: کے اثرات کو تسلیم کر چکے ہیں، چنانچہ

A Ranking of the Most Influential Persons in History

پہلے میں اس پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوئیں۔میں ان شخصیات کی فہرست جمع کی ہے جو تاریخ ہیں۔ جس پر اس کے ہم مذہبوں نے بہت اعتراض کیا کہ تمھیں حضرت عیسیؑ ﷺحضرت محمد نمبر پر حقیقت رہا ہوں کہ بتاف یہ میں تو صررہا،کر کو ڈالنا چاہیے تھا۔ اس نے کہا میں تو دین سے بات نہیںرسول دین جوکہ کر چکے ہیں تسلیمیہ سب ؟ہوا رونما زیادہسب سے دنیا میں کس کا اثر ؟ہے کیامیں ایک انقلاب برپا کیا، تاریخ ان کی نظیر پیش کرنے سے قاصر اس نے دنیا ،لائے تھےﷺ ہے۔انتہائی افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارے مسلمان بھائی اس دین کو فرسودہ اور ناقابل عمل سمجھ عت مطہرہ کے علوم کے مقابلے میں بڑھ کر سمجھ رہے ہیں۔رہے ہیں اور مغربی علوم کو شری

ارشاد ربانی ہے:

)58( یونس: قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ

آپ کہہ دیں کہ اللہ کی مہربانی اور اس کی رحمت پر انہیں خوش ہونا چاہیے، یہ ان چیزوں سے بہتر ہے، جن کو وہ لوگ جمع کر رہے ہیں۔

بعض مفسرین کے نزدیک “فضل اللہ” اور “رحمت” دونوں سے مراد قرآن مجید ہے۔ حضرت ابن عباس اور حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ “فضل “سے مراد قرآن مجید اور “رحمت” سے مراد اسلام ہے۔ گویا کہ قرآن کریم کی دولت دنیا و مافیھا سے بہتر ہے۔

ایک روایت کا مفہوم ہے کہ جس کو قرآن پاک کی دولت سے نوازا گیا اور اس کا خیال یہ ہو کہ کسی اور کو اس سے بہتر چیز ملی ہےتو اس نے چھوٹی چیز کو بڑا سمجھا اور بڑی چیز کو چھوٹا سمجھا۔

« من قرأ القرآن فرأى أن أحدا أعطى أفضل مما أعطي فقد عظم صغيرا وصغر عظيما »

(شعب الایمان للبیہقی، حدیث: 2510)

نے مسلمانوں سے لیے ہیں۔ اس طرح بہت سے کہ بہت سارے سائنسی نظریات مغرب خلاصہ یہ ہےتک لوگ ان نظریات کو نہایت ہی محکم اور نظریات ایسے ہیں جو محض مفروضات ہیں۔ ایک زمانے ایسا آجاتا ہے کہ وہ غلط ثابت ہو جاتے ہیں۔ اس کے رہیں، لیکن پھر ایک دور غیر متزلزل سمجھتے کل ہی محکم اور ناقابل تردید ہیں، لیکن ا س کے متعلق ہمارے اپنے برعکس سماوی علوم ہیں جو بالگویا مسلمانوں کی آراء اور خیالات مغرب زدہ فکر اور الحادی نظریات کے موافق ہوتے جارہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت امت کے ر مسلسل اغوا ہو رہا ہے۔ کہ ہمارا نوجوان نسل فکری طور پامت کے افراد کو فکری اغوا اور الحادی نظریات علمائے کرام کے ذمے یہ ایک اہم فریضہ ہے کہ آزادی دلائیں۔ اس کام کے لیے ضروری ہے کہ جدید نہج پر “علم الکلام” کی بنیاد کے شکنجے سے مطابق مغربی نظریات اور فکر کو رد کریں اور اس کے بالمقابل علوم ڈالیں اور آج کے تقاضوں کے ہمارے غور کریں تو الٰہیہ کی عظمت رفتہ اور عالی شان کو امت مسلمہ کے سامنے واضح کریں۔ہم بھی اس راستے پر پابہ رکاب ہو چکے ، لیکن بہتر علوم موجود ہیںکئی گنا ان کے علوم سے پاساور اپنے عالی ہمیں چاہیئے کہ ان کی تقلید سے گریز کریں ۔وانہ ہو گئےہیں جس پر مغرب والے روہ وقت دور نہیں کہ ہم بھی علوم (وحی کے علوم) کو اپنے درس وتدریس کا مرکز بنائیں، ورنہ م اور الحاد کے سیلاب میں بہہ جائیں گے۔سیکولرز

Video Recording of the first hour of the talk (incomplete), made at Darul Uloom, is available from the following link (audio recording is complete